نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر امن

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نبی مکرم ﷺ پیغمبر امن

(تحریر: رضوان علی)

آقائے کائنات ، نبی مکرم ، تاجدار مدینہ ، سرور قلب و سینہ ، احمد مجتبیٰ ، محمد مصطفیٰ ﷺ کا پیش کردہ دین اپنے ماننے والوں کو جملہ شعبہ ہائے حیات کے لئے مکمل  ، خیر خواہانہ اور قابل عمل تعلیمات اور ضوابط مہیا کرتا ہے ۔دین اسلام جو امن سلامتی ، رافت ونرمی اور عفو ودرگزر سے عبارت ہے درحقیقت ایک عالم گیر اور ہمہ گیر منشور حیات ہے ۔ اسلام کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ تاریخ انسانی ، انسانیت کے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام  جو پہلے انسان تھے وہی پہلے نبی اور مسلم ٹھہرے۔ ان کے دور میں اسلام ابتدائی حالت میں تھا یعنی نوعمر تھا آپ کے بعد جتنے بھی انبیاء کرام آئے انہوں نے اس اسلام ہی کی دعوت پیش کی حتیٰ کہ نبی مکرم ﷺ کو بنی نوع انسان کی رہبری اور راہ ہدایت و حق کی طرف دعوت دینے کی ذمہ داری سونپ دی گئی، آپ پر اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی تعلیمات کو تکمیلی صور ت میں نازل فرمایا ۔ امت محمدیہ اس لحاظ سے خوش نصیب ٹھہری کہ اس کا ہادی اور رہبر و رہنما تمام رہنماوں سے اعلیٰ اور ان کے لئے نازل ہونے والی شریعت سابقہ تمام شرائع سے افضل ، اعلیٰ ، مکمل اور جامع شریعت ہے ۔ تکمیلی صورت میں نازل ہونے والا دین اسلام (شریعت محمدیہ ) نے سابقہ تمام ادیان ومذاہب (یہودیت وعیسائیت سمیت) کو منسوخ کر دیا ۔ کیونکہ اس میں سابقہ ادیان کی تعلیمات کو ضروری اضافوں اور تکمیلی صورت دے کر نازل کر دیا گیا ہے ۔
نبی مکرم ﷺ نے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہدایت نامہ اس وقت کے کفار ، مشرکین اور یہود ونصاریٰ کے سامنے رکھا اور فاران کی چوٹیوں پر کھڑے ہو کر دین اسلام کی دعوت کا آغاز کیا تو یہود ونصاریٰ اور دیگر کفار و مشرکین رفتہ رفتہ دین اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے اور کچھ لوگوں نے اس کو نئی چیز کہ کر ماننے سے انکار کر دیا لیکن آپ ﷺ کی مخالفت بھی نہ کی لیکن ایک خاص گروہ ایسا بھی تھا جس نے آپ ﷺ کی دعوت کو ماننے سے انکار کرنے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی مخالفت کو اپنا منشور اور مشن بنا لیا جس کے بڑے اسباب: جہالت ، ہٹ دھرمی ، لسانی ، قبائلی و خاندانی تعصب اور غرور وتکبر ہیں ، جن کی وجہ سے اس دور کے بے دین ،مشرک اور یہود ونصاریٰ کے ایک مخصوص مشنری گروہ نے اسلام قبول کرنے کے بجائے حضرت محمدالرسول اللہ ﷺ ، قرآن اور دین اسلام کی تعلیمات پر اعتراضات کرنا شروع کر دیئے اور بغض و عناد کی بناء پر ان کی زبانیں زہر اگلنا شروع ہوئیں ، جوں جوں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اس گروہ کے بغض وعناد اور غیظ وغضب میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور اس بے جا مخالفت کا سلسلہ نسل در نسل چلتا رہا جو آج تک جاری ہے ۔
آج بھی اگر اطراف عالم میں نگاہ دوڑائی جائے تو اس علم رنگ وبو میں وقوع پذیر ہونے والے حوادث اور واقعات میں سے ایک انتہائی دردناک اور الم ناک منظر وہ ہے جس میں صلیبی ، یہودی لابی اور سیکولر طبقہ اس کائنات کے محسن اعظم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ومقدس ، آپ کی تعلیمات اور مسلمانوں کے بارے ہتک آمیز باتیں کرتے اورتوہین آمیز رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ۔ کبھی میڈیا پر یہودی لابی اپنی کمینگی ، گھٹیا پن اور اسلام سے حسدو عناد کو ثابت کرتے ہوئے آقا دوجہاں کی ذات اقدس پر مختلف اعتراضات کرتی اور جنگ وجدل کا داعی قرار دیتی ہے تو کبھی آپ کی تعلیمات کو ارہاب ودہشت گردی کی تعلیمات اور ان پر عمل کرنے والوں کو  بنیاد پرست ، دہشت گرد ، جنونی اور انتہا پسند جیسے القابات دے کر ان کی ہتک  کر کے خوشی محسوس کی جاتی ہے ۔یہ سب کچھ ان لوگوں کے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف بغض وعناد کی علامت ہے اور درحقیقت یہ لوگ مشرق اور بالخصوص یورپ و امریکہ میں اسلام کی مقبولیت سے خوف زدہ اورکبیدہ خاطر ہیں۔
یہ بات کسی قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ محسن انسانیت حضرت محمد الرسول ﷺ کی دعوت سراسر امن وآشتی اورتمام انسانوں کی فوز وفلاح اور کامیابی و کامرانی کی دعوت ہے اور آپ ﷺ کے ماننے والے آج بھی امن عالم کے لئے کوشاں اور خواہاں ہیں۔
کوئی بھی تاریخ کا طالب علم ( وہ مسلمان ہو ، مسیح ہو یا کوئی اور) اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ پیغمبر امن حضرت محمد ﷺ نے نا انصافی ، ظلم وزیادتی اور صدیوں سے جاری جنگ وجدل کے خلاف آواز بلندکر کے ایک ایسا بے مثال انقلاب برپا کیا جس کی مثال آج تک تاریخ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے ۔
آج سے تقریبا 1450 سال قبل جب :
v    یہ ساری دنیا گمراہی کی گہری دلدل میں پھنسی ہوئی تھی
v    ہر طرف ظلم وتشدد اور جور وستم کا بازار گرم تھا
v    راہ زنی ، چوری ، ڈکیتی ، خانہ جنگی اور چھینا جھپٹی راہ راست سے بھٹکے ہوئے عیسائیوں ، مشرکوں اور یہودیوں کا منشور حیات بن چکی تھی
v    شراب نوشی ، جوا اور سود خوری عام تھی
v    معاشرہ سیاسی ، معاشی اور سماجی بے ضابطگیوں اور عدم توازن کا شکارتھا
v    امیر غریب کو اور طاقتور کمزور کو کھا رہا تھا
v    برائی ، بدکاری اور گناہ کو مجالس میں فخر کے ساتھ بیا ن کیا جاتا تھا
v    آج اسلام پر اپنے حقوق سلب کرنے کا الزام لگانے والی صنف نازک کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ، جنسی تسکین کے لئے اس عورت ذات کو محافل ومجالس میں ناچنے پر مجبور کیا جاتاتھا ، یہ منڈیوں اور میلوں میں بھیڑ بکری کی طرح فروخت ہوتی رہتی تھی ، گویا کہ اس کی قدر وقیمت کیلے کے چھلکے اور آم کی گھٹلی سے بھی کم تر تھی۔
v    جہالت اپنی انتہا کوچھو رہی تھی
v    الغرض انسانیت کاسائے گدائی لئے در –  در پر امن وسلامتی کی بھیک مانگتی پھر رہی تھی
تو انہی ایام میں سر زمین عرب میں ایک ایسی حسین وجمیل ہستی کا ظہور ہوا:
v    جس میں زندگی کا جلال وجمال اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ جھلک رہا تھا۔
v    جس کی دعوت "اسلم تسلم"  ( اسلام قبول کرو اور سلامتی حاصل کرو) نے معاشرے میں امید اور زندگی کی روح پھونک دی
v    جس کی قیادت میں جاہل عرب معاشرے میں فتنہ وفساد کی جگہ امن وسلامتی نے لے لی
v    صدیوں سے بر سر پیکار قبائل آپس میں ایک ہو گئے
v    صلح واتفاق واتحاد کی فضا قائم ہوئی
v    عورت کو بحیثیت ماں ، بیٹی ، بہن اور بہو کے باعزت مقام ملا
v    بچیوں کو زندہ زمین میں درگور کرنے والے ان کی زندگی ، عزت وناموس اور حقوق کے محافظ بن گئے
v    زنا، سود ، چوری ، ڈکیتی ، زاہ زنی ،جوا اور شراب سے معاشرے کو نجات ملی
v    الغرض نبی مکرم ﷺ کے پیغام امن اور بالخصوص خطبہ حجۃ الوداع ( جو کہ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ اور درحقیقت اسلامک ورلڈ آرڈر ہے) میں آپ کے جاری کردہ احکامات انسانیت کے لئے نوید حیات ثابت ہوئے جن سے معاشرے میں ہر لحاظ سے توازن قائم ہوگیا۔
درحقیت امن اسی بات کا نام ہے کہ انسانوں کو سماجی ، اقتصادی ، عرضی اور جانی لحاظ سے امن وسکون حاصل ہو جائے اور معاشرہ ان تمام عناصر اور مہلک عادات سے پاک ہو جائے جو بد امنی کا سبب بنتی ہیں ۔
نبی مکرم ﷺ نے درج ذیل شعبہ ہائے حیات میں قیام امن کے لئے احکامات جاری اور تعلیمات فراہم کیں:
سماجی اعتبار سے دیکھا جائے تو نبی مکرم ﷺ نے
§        " انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس  من عمل الشیطٰن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون " (المائدہ: 90)
مفہوم: " بلاشبہ شراب ، جوا ، بت اور پانسے یہ پلیدگی ہے ، شیطان کے کاموں سے ہے پس اس سے اجتناب کرو تا کہ تم فلاح پا جاو"
جیسی تعلیمات کی تعلیم  دے کر جوا اور ام الخبائث شراب کے ہر استعمال کو حرام قرار دے کر معاشرے میں امن سلامتی کی روح پھونکی کیونکہ یہی شراب اور جوا ہے جس کی بناء پر لڑائی جھگڑے کی فضا قائم ہوتی اور معاشرے کا امن غارت ہوتا ہے ۔
§        رنگ ونسل اور لسانی تفاوت کی بناء پر ہونے والی خانہ جنگی اور علاقائی وخاندانی تعصب اورفخر و امتیازات کو ختم کرنے کے لئے آپ نے اپنے تاریخی خطاب ، خطبہ حجۃ الوداع میں  " لیس لعربی علی عجمی فضل ولا لعجمی علی عربی ولا لاسود علی ابیض ولا لابیض علی اسود فضل"
مفہوم: "کسی عربی کو کسی عجمی پرکوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر ، اور نہ ہی کسی کالے کو کسی گورے پر اور نہ ہی کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے "
کا درس دے کر نسلی تفاخر اور برادری ازم کا قلع قمع کیا ۔
§        اسی طرح آپ ﷺ نے  " واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ۔۔۔" (آل عمران: 103)
مفہوم: " اور اللہ تعالیٰ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ بازی میں نہ پڑو"
کی تعلیم دے کر اتفاق واتحاد کی فضا کرنے کا بندوبست اور فرقہ بندی اور انتشار کا سد باب کیا ۔
§        سماج سے آپا دھاپی اور چھینا جھپٹی  کے خاتمے اور مسلمانوں کو ایثار وقربانی پر تیار کرنے کے لئے  " ویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ" (الحشر:9)
مفہوم: "اور وہ اپنی ضرورت کی اشیاء بھی ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کو دیتے ہیں "
جیسی صفات اپنانے کی ترغیب دلائی، گویا آپ ﷺ نے عملی طور پر عدل وانصاف کا بول بالا کر کے معاشرے کو جنت نظیر بنا دیا۔
اقتصادی اعتبار سے نبی مکرم ﷺ نے
·        ہر اس عمل کو حرام قرار دیا جس سے لین دین کرنے والے ایک دوسرے کے مخالف بنیں یا جس سے انہیں ایک دوسرے کا حق غصب کرنے کا موقعہ ملے ۔ آپ ﷺ نے لوگوں کے اموال محفوظ کرنے کے لئے " ولا تاکلو اموالکم بینکم بالباطل" (البقرۃ: 188)
مفہوم: " ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقے سے نہ کھاو"
·        اور "السارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما" ( المائدۃ : 38)
مفہوم: " چوری کرنے والے اور چوری کرنے والی کے ہاتھ کاٹ دو"
اور اسی طرح کے دیگر اللہ تعالیٰ کے احکامات لوگوں تک پہنچا کر تمام اراکین معاشرہ کے اموال کی حفاظت کا بندوبست کیا ۔
·        آپ ﷺ نے سود خوری ( جو کہ اقتصادی میدان میں ناسور کی حیثیت رکھتی ہے ، جس سے معاشی توازن بگاڑ کا شکار ہوتا اور گردش دولت متاثر ہوتی ہے ) کو قطعی حرام قرار دے کر افلاس وغربت کے خاتمے اور غریب عوام کی فلاح کے لئے اقدامات کئے۔
نفسی/ جانی لحاظ سے بھی آپ ﷺ نے
§        انسانیت کی فوز وفلاح اور خیر خواہی پر مبنی احکامات جاری کئے ، اس سلسلے میں آپ کی فراہم کردہ تعلیمات " ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق" ( الاسراء: 33)
مفہوم: "کسی کو ناحق قتل مت کرو"
§        اور  "من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا" (المائدہ: 32) مفہوم: جسن نے ایک شخص کوقتل کیا پس گویا اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا "
سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی دعوت اور تعلیم امن وسلامتی کی دعوت ہے ۔
عرضی (عزت کے معاملات) کے لحاظ سے آپ ﷺ نے
·        لوگوں کی عزتوں کو محفوظ کرنے کے لئے ایسی تعلیمات سے نوازا جن پر عمل کرنے سے عرضی(عزت وغیرت کے ) مسائل کی وجہ سے ہونے والے فسادات کا قلع قمع ہو جاتا ہے ،
·        آپ  ﷺ نے " ولاتقربوا الزنا" ( الاسراء : 32) اور زنا کے قریب ہی نہ جاو " کا حکم سنایا ، جس پر عمل کرنے سے لوگوں کی عزتیں اور حسب ونسب کی حفاظت ہو سکتی ہے ،
·        اسی طرح آپ نے تہمت اور بہتان بازی کی سزائیں مقرر کر کے عوام الناس کی عزتوں کو محفوظ کیا۔
آقائے کائنات ، محسن انسانیت کے پیش کردہ دین سے مذکورہ چند فرامین اس بات کو روز روشن کی طرح واضح کر تے ہیں کہ دین اسلام ، دین امن اور نبی مکرم ﷺ داعی امن ہیں۔
لیکن بنی مکرم ﷺ اور دین اسلام سے حسد وبغض رکھنے والوں کی فتنہ انگیزی اور شر پسندی کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ وہ حق کو تسلیم کرنے کی بجائے الٹا الزام تراشیاں شروع کردیں۔
یہ فی الحقیقت یہود کے خبث باطن کا نتیجہ ہے جن کی مکاری ، غداری ، فتنہ انگیزی اور فسادی ذہنیت کی وجہ سے رحمۃ للعٰلمین نے "ا خرجوا الیھود اھل الحجاز واھل نجران من جزیرۃ العرب" ( مسند احمد: مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ: رقم الحدیث : 1599) یہود کو جزیرۃ العرب سے ہی نکال دو،جیسا سخت حکم صادر فرمایا۔
عزیزان ملت! آج ان یہود کو شدت کے ساتھ اس بات کا احساس ہے کہ عیسائیت کو یرغمال بنا لینے کے بعد تسخیر عالم کے منصوبے میں ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہی ہیں جن کو آپس میں تقسیم کرنے اور ان کو ان کے دین سے دور کرنے کے لئے ان لوگوں نے مختلف محاذوں پر کام شروع کر رکھا ہے ۔ یہ لوگ  ہادی کائنات کی ذات اقدس پر رکیک حملے  کرنےاور آپ ﷺ کو جنگ وجدل کی دعوت  دینے والا ثابت کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف  ہیں۔
 جبکہ نبی مکرم ﷺ نے اگر کچھ جنگیں کیں بھی تو وہ جنگ برائے جنگ نہیں بلکہ وہ جنگ برائے امن ہوا کرتی تھیں اور جنگ کے حالات میں نبی مکرم ﷺ کی یہی تعلیم ہے کہ مدمقابل کو پہلے امن وصلح کی دعوت دی جائے یعنی دین اسلام قبول کرنے کو کہا جائے اگر وہ تیار نہ ہوں تو جزیہ اور جنگ آخری آپشن ہے۔
معزز قاریئن کرام! آقائے کائنات کی جنگ کی حالت میں بھی ہدایات آپ کی امن پسندی کا ثبوت فراہم کرتی ہیں ، آپ کی سیرت طیبہ پر مشتمل احادیث کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر آپ ﷺ صلح جو ، صلح کوپسند کرنے والے اور صلح کروانے والے تھے ، آپ ﷺ انسانیت کے خیر خواہ اور محبت واخوت کا درس دینے والے تھے، آپ انتقام کی جگہ عفو ودرگزر کی تعلیم دیتے اور خود بھی اس پرعمل کرنے تھے
اگر آپ ﷺ شدت پسند ، انتقام پسند اور دہشت گردی کی تعلیم دینے والے ہوتے تو:
·        آپ ﷺ فتح مکہ کے موقع پر واضح فتح حاصل کر لینے کے بعد سرتسلیم خم کئے ہوئے اپنے جانی دشمنوں کو " اذھبوا انتم الطلقاء لاتثریب علیکم الیوم" کہ "جاو آج تم کو کھلی معافی ہے ، تم پر کوئی پکڑ نہیں ہے " جیسی نوید امن نہ سناتے
·        آپ ﷺ " من قتل معاھدا لم یرح برائحۃ الجنۃ" ( صحیح البخاری ، کتاب الجزیۃ : 293)  کہ " جس نے کسی ذمی کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا" جیسی وعید نہ سناتے۔
·        آپ ﷺ جنگ کے موقعہ پر " ولا تمثلوا " ( سنن الترمذی ،کتاب الدیات ، باب ما جاء فی النھی عن المثلۃ : 1328) فرما کر مثلہ کرنے سے منع نہ فرماتے۔
·        اسی طرح آپ ﷺ جنگ کے موقعہ پر  " ولا تقتلوا ولیدا" ( سنن الترمذی ، کتاب الدیات ، باب ما جاء فی النھی عن المثلۃ : 1328) " کسی بچے کو قتل نہ کرو" اور " ولا تقتلن امراۃ ولا عسیفا" ( سنن ابی داود ،کتاب الجھاد ، 2295)  "اور عورتوں اور مزدوروں کو بھی قتل نہ کیا جائے " اور  '' ولا تقتلوا شیخا فانیا" ( سنن ابی داود ،کتاب الجھاد : 2247) " اور کسی عمر رسیدہ (بوڑھے) کو بی قتل نہ کیا جائے " جیسے احکامات صادر نہ فرماتے۔
نبی مکرم ﷺ کے دور میں تمام غزوات میں مسلمان شہداء کی تعداد 259 اور کفار مقتولین کی تعداد 759 ہے لیکن اس عظیم انقلاب امن و آزادی کے مقابلے میں ان جانو ں کی تعداد انتہائی کم ہے ۔
جبکہ دوسری طرف نام نہاد امن پسند قوتوں  کی کارکردگی بھی ملاحظہ فرمائیں کہ جنگ عظیم اول کے مقتولین کی تعداد 73،38،000 سے زائد اور جنگ عظیم دوم کے مقتولین کی تعداد: 4،43،43،000 سے زیادہ ہے ۔ روس کے سرخ انقلاب سے لے کر 1980ء تک 68،00،000 افراد قتل کئے گئے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ان سب کو مسلمانوں نے قتل کیا ؟  یا یہ بد نصیب لوگ اس صیہونی منصوبے کی بھینٹ چڑھ گئے جو سارے دنیا پر اپنی بلا شرکت غیرے حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے اور انسانیت کا مسلسل خون پئے جا رہا ہے ۔
اس سے  بھی بڑھ کر موجودہ حالات میں امریکہ ( جو کہ صیہونی تحریک کے ہاتھوں مکمل طورپر یرغمال ہو جانے والی ریاست ہے ) نے عراق اور افغانستان میں جو دہشت گردانہ رویہ اختیار کیا اور جھوٹے دعوں اور غلط مفروضات کو بنیاد بنا کر ان ممالک پر کارپٹ بم باری کی اور جنگجو و غیر جنگجو ۔ مرد یا عورت ،جوان یا بوڑھا بغیر کسی امتیاز کے سارے کے سارے ممالک کو تہس نہس کر ڈالا اور لاکھوں افراد کو اب تک خاک وخون میں نہلایا جا رہا ہے یہ کس کی تعلیمات کا نتیجہ ہے ؟؟؟؟ اور سب سے بڑھ کر اس نے اپنی ان جنگوں میں کسی بھی جنگی قانوں کو مدنطر نہیں رکھا ، اس کی جیلو ں میں قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک اور درندگی سے ساری دنیا واقف ہے لیکن شائد ساری دنیا کے معیارات بدل گئے اور ہر ملک دوہرے معیار کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے کہ غریب اور کمزور اقوام وممالک کے لئے تو اصول اور ہیں لیکن طاقتور کا ہر جرم اور بربریت ایک خاص مصلحت کا حامل بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے
لیکن آج حقیقت یہی ہے کہ سارا عالم کفر صیہونی تحریک کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اور سارے مل کر عالم اسلام پر ٹوٹ پڑے ہیں ، آگ وخون میں جلتا عراق و افغانستان اور غیروں کی سازشوں کا شکار مصر ، شام ، لیبیا اور پاکستان  اس کا واضح ثبوت ہیں۔ اور جرم صرف اتنا کہ یہ مسلم ممالک ہیں۔
گلہ غیروں سے نہیں ، صرف اپنوں سے گذارش ہے کہ وہ نام نہاد سیکولر اور روشن خیال بننے کے شوق میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر نہ اگلیں ، حقائق کو دیکھیں اور آنکھیں کھول کر بار بار دیکھیں !
اور خود بھی اس بات کو تسلیم کریں اور دوسرں کو بھی بتائیں کہ اسلام امن کا دین ہے
مزدکی ہو کہ افرنگی ہو مس خام میں ہے
امن عالم  فقط  دامن  اسلام  میں  ہے
 حضرت محمد ﷺ انسانیت کے خیر خواہ اور امن کے داعی اور پیغمبر ہیں ،آپ ﷺ کی سیرت و اسوہ ، دعوت وکردار اور تعلیمات وفرامین اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ ظلم وستم ، عداوت وبغاوت ، حسد وبغض اور ارہاب و دہشت گردی کو ختم کرنے والے اور عزت واخوت ، چاہت و پیار ، محبت وعفت ، شرافت وعدالت ، امن وآشتی اور صلح وسلامتی کے داعی ہیں
سلام  اس   پر  کہ  اسرار   محبت  جس   نے   سکھائے
سلام اس  پر کہ جس نے  زخم  کھا  کر پھول  برسائے
سلام اس پرکہ جس نے خون کے پیاسوں کو قبائیں دیں

سلام اس پر  کہ  جس  نے  گالیا ں  سن کر  دعائیں  دیں



No comments:

Post a Comment