مذہب کے نام پر نوجوان لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور


مذہب کے نام پر نوجوان لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور


نئی دلی (نیوز ڈیسک) مذہب انسان کو پاکیزہ اور باعزت زندگی جیسی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے روشناس کرواتاہے لیکن بعض اوقات انسان مذہب کے نام پر ہی اس قدر ناپاک کام کرنا شروع کردیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بھارت میں مذہب کے نام پر جسم فروشی بھی ایک ایسا ہی افسوسناک کام ہے جو کہ اب ایک بڑے کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ 

اخبار ’ٹیلی گراف‘ میں شائع ہونے والے مضمون میں تحقیق کار سارہ ہیرس بتاتی ہیں کہ انہوں نے بھارتی ریاست کرناٹکا میں دو سال ایسی خواتین کے حالات جاننے میں گزارے کہ جنہیں بھگوان کے نام پر جسم فروشی پر لگادیا گیا تھا۔ سارہ کہتی ہیں کہ 2008ءمیں ان کا پہلی دفعہ ”دیو داسی“ کہلانے والی خواتین کے ساتھ آمنا سامنا ہوا۔ یہ خواتین عام جسم فروش خواتین سے خاصی مختلف نظر آتی ہیں۔ یہ مذہبی روپ میں نظر آتی ہیں، رنگ برنگے لباس پہنتی ہیں اور زیورات کا استعمال بھی کرتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے گاہکوں کے لئے ان میں اور عام جسم فروش خواتین میں کوئی فرق نہیں۔
صرف ریاست کرناٹکا میں ہی ایسی خواتین کی تعداد 23 ہزار سے زائد تھی، جنہیں ان کے اپنے گھر والوں نے ہی دیوداسیاں بنانے کے لئے مندروں اور پروہتوں کو بیچ دیا تھا، جو ان سے شرمناک دھندہ کروارہے تھے۔ سارہ کہتی ہیں کہ اگر تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ شرمناک روایت 14 سے 15 سو سال پرانی ہے جب قدیم بھارت میں لوگ اپنی نوعمر لڑکیوں کو افزائش نسل کی دیوی ’یلاما‘ سے منسوب کرکے مندروں میں چھوڑ دیا کرتے تھے۔ ابتدائی دور میں یہ دیوداسیاں عموماً مندروں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں اور مذہبی رسومات میں شرکت کیا کرتی تھیں۔ بعدازاں ان میں گانے بجانے اور امراءو نوابوں کی تفریح طبع کا اہتمام کرنے کا رواج بھی عام ہونے لگا۔ چند صدیاں بعد یہ مذہبی روایت اس قدر زوال پذیر ہوگئی کہ دیوداسیوں کا ہندو مت کی عبادات و رسومات سے تعلق تقریباً ختم ہوگیا اور یہ محض جسم فروش خواتین بن کررہ گئیں۔ 

آج بھی بھارت کے طول و عرض میں غریب خاندان جانتے بوجھتے ہوئے اپنی بچیوں کو دیوداسیاں بنانے کے لئے فروخت کردیتے ہیںاور پھر ان کی تمام عمر ہوس پرستوں کی تفریح طبع کا سامان بنتے ہوئے گزرجاتی ہے، اور ستم ظریفی دیکھئے کہ ان بچیوں کو بیچنے والے ان کے اپنے والدین سے لے کر ان کے جسموں کے ساتھ ہوس کی بھوک مٹانے والے گاہکوں تک ہر کوئی اس شرمناک کام کو مذہب کے لبادے میں کر رہا ہے۔
۔