http://www.express.pk/story/301138/

انڈونیشیا میں ایک عام شہری نے ملک کے  سربراہ کے طور حلف اٹھا لیا



http://www.express.pk/story/301138

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر امن

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نبی مکرم ﷺ پیغمبر امن

(تحریر: رضوان علی)

آقائے کائنات ، نبی مکرم ، تاجدار مدینہ ، سرور قلب و سینہ ، احمد مجتبیٰ ، محمد مصطفیٰ ﷺ کا پیش کردہ دین اپنے ماننے والوں کو جملہ شعبہ ہائے حیات کے لئے مکمل  ، خیر خواہانہ اور قابل عمل تعلیمات اور ضوابط مہیا کرتا ہے ۔دین اسلام جو امن سلامتی ، رافت ونرمی اور عفو ودرگزر سے عبارت ہے درحقیقت ایک عالم گیر اور ہمہ گیر منشور حیات ہے ۔ اسلام کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ تاریخ انسانی ، انسانیت کے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام  جو پہلے انسان تھے وہی پہلے نبی اور مسلم ٹھہرے۔ ان کے دور میں اسلام ابتدائی حالت میں تھا یعنی نوعمر تھا آپ کے بعد جتنے بھی انبیاء کرام آئے انہوں نے اس اسلام ہی کی دعوت پیش کی حتیٰ کہ نبی مکرم ﷺ کو بنی نوع انسان کی رہبری اور راہ ہدایت و حق کی طرف دعوت دینے کی ذمہ داری سونپ دی گئی، آپ پر اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی تعلیمات کو تکمیلی صور ت میں نازل فرمایا ۔ امت محمدیہ اس لحاظ سے خوش نصیب ٹھہری کہ اس کا ہادی اور رہبر و رہنما تمام رہنماوں سے اعلیٰ اور ان کے لئے نازل ہونے والی شریعت سابقہ تمام شرائع سے افضل ، اعلیٰ ، مکمل اور جامع شریعت ہے ۔ تکمیلی صورت میں نازل ہونے والا دین اسلام (شریعت محمدیہ ) نے سابقہ تمام ادیان ومذاہب (یہودیت وعیسائیت سمیت) کو منسوخ کر دیا ۔ کیونکہ اس میں سابقہ ادیان کی تعلیمات کو ضروری اضافوں اور تکمیلی صورت دے کر نازل کر دیا گیا ہے ۔
نبی مکرم ﷺ نے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہدایت نامہ اس وقت کے کفار ، مشرکین اور یہود ونصاریٰ کے سامنے رکھا اور فاران کی چوٹیوں پر کھڑے ہو کر دین اسلام کی دعوت کا آغاز کیا تو یہود ونصاریٰ اور دیگر کفار و مشرکین رفتہ رفتہ دین اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے اور کچھ لوگوں نے اس کو نئی چیز کہ کر ماننے سے انکار کر دیا لیکن آپ ﷺ کی مخالفت بھی نہ کی لیکن ایک خاص گروہ ایسا بھی تھا جس نے آپ ﷺ کی دعوت کو ماننے سے انکار کرنے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی مخالفت کو اپنا منشور اور مشن بنا لیا جس کے بڑے اسباب: جہالت ، ہٹ دھرمی ، لسانی ، قبائلی و خاندانی تعصب اور غرور وتکبر ہیں ، جن کی وجہ سے اس دور کے بے دین ،مشرک اور یہود ونصاریٰ کے ایک مخصوص مشنری گروہ نے اسلام قبول کرنے کے بجائے حضرت محمدالرسول اللہ ﷺ ، قرآن اور دین اسلام کی تعلیمات پر اعتراضات کرنا شروع کر دیئے اور بغض و عناد کی بناء پر ان کی زبانیں زہر اگلنا شروع ہوئیں ، جوں جوں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اس گروہ کے بغض وعناد اور غیظ وغضب میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور اس بے جا مخالفت کا سلسلہ نسل در نسل چلتا رہا جو آج تک جاری ہے ۔
آج بھی اگر اطراف عالم میں نگاہ دوڑائی جائے تو اس علم رنگ وبو میں وقوع پذیر ہونے والے حوادث اور واقعات میں سے ایک انتہائی دردناک اور الم ناک منظر وہ ہے جس میں صلیبی ، یہودی لابی اور سیکولر طبقہ اس کائنات کے محسن اعظم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ومقدس ، آپ کی تعلیمات اور مسلمانوں کے بارے ہتک آمیز باتیں کرتے اورتوہین آمیز رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ۔ کبھی میڈیا پر یہودی لابی اپنی کمینگی ، گھٹیا پن اور اسلام سے حسدو عناد کو ثابت کرتے ہوئے آقا دوجہاں کی ذات اقدس پر مختلف اعتراضات کرتی اور جنگ وجدل کا داعی قرار دیتی ہے تو کبھی آپ کی تعلیمات کو ارہاب ودہشت گردی کی تعلیمات اور ان پر عمل کرنے والوں کو  بنیاد پرست ، دہشت گرد ، جنونی اور انتہا پسند جیسے القابات دے کر ان کی ہتک  کر کے خوشی محسوس کی جاتی ہے ۔یہ سب کچھ ان لوگوں کے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف بغض وعناد کی علامت ہے اور درحقیقت یہ لوگ مشرق اور بالخصوص یورپ و امریکہ میں اسلام کی مقبولیت سے خوف زدہ اورکبیدہ خاطر ہیں۔
یہ بات کسی قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ محسن انسانیت حضرت محمد الرسول ﷺ کی دعوت سراسر امن وآشتی اورتمام انسانوں کی فوز وفلاح اور کامیابی و کامرانی کی دعوت ہے اور آپ ﷺ کے ماننے والے آج بھی امن عالم کے لئے کوشاں اور خواہاں ہیں۔
کوئی بھی تاریخ کا طالب علم ( وہ مسلمان ہو ، مسیح ہو یا کوئی اور) اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ پیغمبر امن حضرت محمد ﷺ نے نا انصافی ، ظلم وزیادتی اور صدیوں سے جاری جنگ وجدل کے خلاف آواز بلندکر کے ایک ایسا بے مثال انقلاب برپا کیا جس کی مثال آج تک تاریخ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے ۔
آج سے تقریبا 1450 سال قبل جب :
v    یہ ساری دنیا گمراہی کی گہری دلدل میں پھنسی ہوئی تھی
v    ہر طرف ظلم وتشدد اور جور وستم کا بازار گرم تھا
v    راہ زنی ، چوری ، ڈکیتی ، خانہ جنگی اور چھینا جھپٹی راہ راست سے بھٹکے ہوئے عیسائیوں ، مشرکوں اور یہودیوں کا منشور حیات بن چکی تھی
v    شراب نوشی ، جوا اور سود خوری عام تھی
v    معاشرہ سیاسی ، معاشی اور سماجی بے ضابطگیوں اور عدم توازن کا شکارتھا
v    امیر غریب کو اور طاقتور کمزور کو کھا رہا تھا
v    برائی ، بدکاری اور گناہ کو مجالس میں فخر کے ساتھ بیا ن کیا جاتا تھا
v    آج اسلام پر اپنے حقوق سلب کرنے کا الزام لگانے والی صنف نازک کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ، جنسی تسکین کے لئے اس عورت ذات کو محافل ومجالس میں ناچنے پر مجبور کیا جاتاتھا ، یہ منڈیوں اور میلوں میں بھیڑ بکری کی طرح فروخت ہوتی رہتی تھی ، گویا کہ اس کی قدر وقیمت کیلے کے چھلکے اور آم کی گھٹلی سے بھی کم تر تھی۔
v    جہالت اپنی انتہا کوچھو رہی تھی
v    الغرض انسانیت کاسائے گدائی لئے در –  در پر امن وسلامتی کی بھیک مانگتی پھر رہی تھی
تو انہی ایام میں سر زمین عرب میں ایک ایسی حسین وجمیل ہستی کا ظہور ہوا:
v    جس میں زندگی کا جلال وجمال اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ جھلک رہا تھا۔
v    جس کی دعوت "اسلم تسلم"  ( اسلام قبول کرو اور سلامتی حاصل کرو) نے معاشرے میں امید اور زندگی کی روح پھونک دی
v    جس کی قیادت میں جاہل عرب معاشرے میں فتنہ وفساد کی جگہ امن وسلامتی نے لے لی
v    صدیوں سے بر سر پیکار قبائل آپس میں ایک ہو گئے
v    صلح واتفاق واتحاد کی فضا قائم ہوئی
v    عورت کو بحیثیت ماں ، بیٹی ، بہن اور بہو کے باعزت مقام ملا
v    بچیوں کو زندہ زمین میں درگور کرنے والے ان کی زندگی ، عزت وناموس اور حقوق کے محافظ بن گئے
v    زنا، سود ، چوری ، ڈکیتی ، زاہ زنی ،جوا اور شراب سے معاشرے کو نجات ملی
v    الغرض نبی مکرم ﷺ کے پیغام امن اور بالخصوص خطبہ حجۃ الوداع ( جو کہ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ اور درحقیقت اسلامک ورلڈ آرڈر ہے) میں آپ کے جاری کردہ احکامات انسانیت کے لئے نوید حیات ثابت ہوئے جن سے معاشرے میں ہر لحاظ سے توازن قائم ہوگیا۔
درحقیت امن اسی بات کا نام ہے کہ انسانوں کو سماجی ، اقتصادی ، عرضی اور جانی لحاظ سے امن وسکون حاصل ہو جائے اور معاشرہ ان تمام عناصر اور مہلک عادات سے پاک ہو جائے جو بد امنی کا سبب بنتی ہیں ۔
نبی مکرم ﷺ نے درج ذیل شعبہ ہائے حیات میں قیام امن کے لئے احکامات جاری اور تعلیمات فراہم کیں:
سماجی اعتبار سے دیکھا جائے تو نبی مکرم ﷺ نے
§        " انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس  من عمل الشیطٰن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون " (المائدہ: 90)
مفہوم: " بلاشبہ شراب ، جوا ، بت اور پانسے یہ پلیدگی ہے ، شیطان کے کاموں سے ہے پس اس سے اجتناب کرو تا کہ تم فلاح پا جاو"
جیسی تعلیمات کی تعلیم  دے کر جوا اور ام الخبائث شراب کے ہر استعمال کو حرام قرار دے کر معاشرے میں امن سلامتی کی روح پھونکی کیونکہ یہی شراب اور جوا ہے جس کی بناء پر لڑائی جھگڑے کی فضا قائم ہوتی اور معاشرے کا امن غارت ہوتا ہے ۔
§        رنگ ونسل اور لسانی تفاوت کی بناء پر ہونے والی خانہ جنگی اور علاقائی وخاندانی تعصب اورفخر و امتیازات کو ختم کرنے کے لئے آپ نے اپنے تاریخی خطاب ، خطبہ حجۃ الوداع میں  " لیس لعربی علی عجمی فضل ولا لعجمی علی عربی ولا لاسود علی ابیض ولا لابیض علی اسود فضل"
مفہوم: "کسی عربی کو کسی عجمی پرکوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر ، اور نہ ہی کسی کالے کو کسی گورے پر اور نہ ہی کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے "
کا درس دے کر نسلی تفاخر اور برادری ازم کا قلع قمع کیا ۔
§        اسی طرح آپ ﷺ نے  " واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ۔۔۔" (آل عمران: 103)
مفہوم: " اور اللہ تعالیٰ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ بازی میں نہ پڑو"
کی تعلیم دے کر اتفاق واتحاد کی فضا کرنے کا بندوبست اور فرقہ بندی اور انتشار کا سد باب کیا ۔
§        سماج سے آپا دھاپی اور چھینا جھپٹی  کے خاتمے اور مسلمانوں کو ایثار وقربانی پر تیار کرنے کے لئے  " ویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ" (الحشر:9)
مفہوم: "اور وہ اپنی ضرورت کی اشیاء بھی ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کو دیتے ہیں "
جیسی صفات اپنانے کی ترغیب دلائی، گویا آپ ﷺ نے عملی طور پر عدل وانصاف کا بول بالا کر کے معاشرے کو جنت نظیر بنا دیا۔
اقتصادی اعتبار سے نبی مکرم ﷺ نے
·        ہر اس عمل کو حرام قرار دیا جس سے لین دین کرنے والے ایک دوسرے کے مخالف بنیں یا جس سے انہیں ایک دوسرے کا حق غصب کرنے کا موقعہ ملے ۔ آپ ﷺ نے لوگوں کے اموال محفوظ کرنے کے لئے " ولا تاکلو اموالکم بینکم بالباطل" (البقرۃ: 188)
مفہوم: " ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقے سے نہ کھاو"
·        اور "السارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما" ( المائدۃ : 38)
مفہوم: " چوری کرنے والے اور چوری کرنے والی کے ہاتھ کاٹ دو"
اور اسی طرح کے دیگر اللہ تعالیٰ کے احکامات لوگوں تک پہنچا کر تمام اراکین معاشرہ کے اموال کی حفاظت کا بندوبست کیا ۔
·        آپ ﷺ نے سود خوری ( جو کہ اقتصادی میدان میں ناسور کی حیثیت رکھتی ہے ، جس سے معاشی توازن بگاڑ کا شکار ہوتا اور گردش دولت متاثر ہوتی ہے ) کو قطعی حرام قرار دے کر افلاس وغربت کے خاتمے اور غریب عوام کی فلاح کے لئے اقدامات کئے۔
نفسی/ جانی لحاظ سے بھی آپ ﷺ نے
§        انسانیت کی فوز وفلاح اور خیر خواہی پر مبنی احکامات جاری کئے ، اس سلسلے میں آپ کی فراہم کردہ تعلیمات " ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق" ( الاسراء: 33)
مفہوم: "کسی کو ناحق قتل مت کرو"
§        اور  "من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا" (المائدہ: 32) مفہوم: جسن نے ایک شخص کوقتل کیا پس گویا اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا "
سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی دعوت اور تعلیم امن وسلامتی کی دعوت ہے ۔
عرضی (عزت کے معاملات) کے لحاظ سے آپ ﷺ نے
·        لوگوں کی عزتوں کو محفوظ کرنے کے لئے ایسی تعلیمات سے نوازا جن پر عمل کرنے سے عرضی(عزت وغیرت کے ) مسائل کی وجہ سے ہونے والے فسادات کا قلع قمع ہو جاتا ہے ،
·        آپ  ﷺ نے " ولاتقربوا الزنا" ( الاسراء : 32) اور زنا کے قریب ہی نہ جاو " کا حکم سنایا ، جس پر عمل کرنے سے لوگوں کی عزتیں اور حسب ونسب کی حفاظت ہو سکتی ہے ،
·        اسی طرح آپ نے تہمت اور بہتان بازی کی سزائیں مقرر کر کے عوام الناس کی عزتوں کو محفوظ کیا۔
آقائے کائنات ، محسن انسانیت کے پیش کردہ دین سے مذکورہ چند فرامین اس بات کو روز روشن کی طرح واضح کر تے ہیں کہ دین اسلام ، دین امن اور نبی مکرم ﷺ داعی امن ہیں۔
لیکن بنی مکرم ﷺ اور دین اسلام سے حسد وبغض رکھنے والوں کی فتنہ انگیزی اور شر پسندی کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ وہ حق کو تسلیم کرنے کی بجائے الٹا الزام تراشیاں شروع کردیں۔
یہ فی الحقیقت یہود کے خبث باطن کا نتیجہ ہے جن کی مکاری ، غداری ، فتنہ انگیزی اور فسادی ذہنیت کی وجہ سے رحمۃ للعٰلمین نے "ا خرجوا الیھود اھل الحجاز واھل نجران من جزیرۃ العرب" ( مسند احمد: مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ: رقم الحدیث : 1599) یہود کو جزیرۃ العرب سے ہی نکال دو،جیسا سخت حکم صادر فرمایا۔
عزیزان ملت! آج ان یہود کو شدت کے ساتھ اس بات کا احساس ہے کہ عیسائیت کو یرغمال بنا لینے کے بعد تسخیر عالم کے منصوبے میں ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہی ہیں جن کو آپس میں تقسیم کرنے اور ان کو ان کے دین سے دور کرنے کے لئے ان لوگوں نے مختلف محاذوں پر کام شروع کر رکھا ہے ۔ یہ لوگ  ہادی کائنات کی ذات اقدس پر رکیک حملے  کرنےاور آپ ﷺ کو جنگ وجدل کی دعوت  دینے والا ثابت کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف  ہیں۔
 جبکہ نبی مکرم ﷺ نے اگر کچھ جنگیں کیں بھی تو وہ جنگ برائے جنگ نہیں بلکہ وہ جنگ برائے امن ہوا کرتی تھیں اور جنگ کے حالات میں نبی مکرم ﷺ کی یہی تعلیم ہے کہ مدمقابل کو پہلے امن وصلح کی دعوت دی جائے یعنی دین اسلام قبول کرنے کو کہا جائے اگر وہ تیار نہ ہوں تو جزیہ اور جنگ آخری آپشن ہے۔
معزز قاریئن کرام! آقائے کائنات کی جنگ کی حالت میں بھی ہدایات آپ کی امن پسندی کا ثبوت فراہم کرتی ہیں ، آپ کی سیرت طیبہ پر مشتمل احادیث کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر آپ ﷺ صلح جو ، صلح کوپسند کرنے والے اور صلح کروانے والے تھے ، آپ ﷺ انسانیت کے خیر خواہ اور محبت واخوت کا درس دینے والے تھے، آپ انتقام کی جگہ عفو ودرگزر کی تعلیم دیتے اور خود بھی اس پرعمل کرنے تھے
اگر آپ ﷺ شدت پسند ، انتقام پسند اور دہشت گردی کی تعلیم دینے والے ہوتے تو:
·        آپ ﷺ فتح مکہ کے موقع پر واضح فتح حاصل کر لینے کے بعد سرتسلیم خم کئے ہوئے اپنے جانی دشمنوں کو " اذھبوا انتم الطلقاء لاتثریب علیکم الیوم" کہ "جاو آج تم کو کھلی معافی ہے ، تم پر کوئی پکڑ نہیں ہے " جیسی نوید امن نہ سناتے
·        آپ ﷺ " من قتل معاھدا لم یرح برائحۃ الجنۃ" ( صحیح البخاری ، کتاب الجزیۃ : 293)  کہ " جس نے کسی ذمی کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا" جیسی وعید نہ سناتے۔
·        آپ ﷺ جنگ کے موقعہ پر " ولا تمثلوا " ( سنن الترمذی ،کتاب الدیات ، باب ما جاء فی النھی عن المثلۃ : 1328) فرما کر مثلہ کرنے سے منع نہ فرماتے۔
·        اسی طرح آپ ﷺ جنگ کے موقعہ پر  " ولا تقتلوا ولیدا" ( سنن الترمذی ، کتاب الدیات ، باب ما جاء فی النھی عن المثلۃ : 1328) " کسی بچے کو قتل نہ کرو" اور " ولا تقتلن امراۃ ولا عسیفا" ( سنن ابی داود ،کتاب الجھاد ، 2295)  "اور عورتوں اور مزدوروں کو بھی قتل نہ کیا جائے " اور  '' ولا تقتلوا شیخا فانیا" ( سنن ابی داود ،کتاب الجھاد : 2247) " اور کسی عمر رسیدہ (بوڑھے) کو بی قتل نہ کیا جائے " جیسے احکامات صادر نہ فرماتے۔
نبی مکرم ﷺ کے دور میں تمام غزوات میں مسلمان شہداء کی تعداد 259 اور کفار مقتولین کی تعداد 759 ہے لیکن اس عظیم انقلاب امن و آزادی کے مقابلے میں ان جانو ں کی تعداد انتہائی کم ہے ۔
جبکہ دوسری طرف نام نہاد امن پسند قوتوں  کی کارکردگی بھی ملاحظہ فرمائیں کہ جنگ عظیم اول کے مقتولین کی تعداد 73،38،000 سے زائد اور جنگ عظیم دوم کے مقتولین کی تعداد: 4،43،43،000 سے زیادہ ہے ۔ روس کے سرخ انقلاب سے لے کر 1980ء تک 68،00،000 افراد قتل کئے گئے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ان سب کو مسلمانوں نے قتل کیا ؟  یا یہ بد نصیب لوگ اس صیہونی منصوبے کی بھینٹ چڑھ گئے جو سارے دنیا پر اپنی بلا شرکت غیرے حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے اور انسانیت کا مسلسل خون پئے جا رہا ہے ۔
اس سے  بھی بڑھ کر موجودہ حالات میں امریکہ ( جو کہ صیہونی تحریک کے ہاتھوں مکمل طورپر یرغمال ہو جانے والی ریاست ہے ) نے عراق اور افغانستان میں جو دہشت گردانہ رویہ اختیار کیا اور جھوٹے دعوں اور غلط مفروضات کو بنیاد بنا کر ان ممالک پر کارپٹ بم باری کی اور جنگجو و غیر جنگجو ۔ مرد یا عورت ،جوان یا بوڑھا بغیر کسی امتیاز کے سارے کے سارے ممالک کو تہس نہس کر ڈالا اور لاکھوں افراد کو اب تک خاک وخون میں نہلایا جا رہا ہے یہ کس کی تعلیمات کا نتیجہ ہے ؟؟؟؟ اور سب سے بڑھ کر اس نے اپنی ان جنگوں میں کسی بھی جنگی قانوں کو مدنطر نہیں رکھا ، اس کی جیلو ں میں قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک اور درندگی سے ساری دنیا واقف ہے لیکن شائد ساری دنیا کے معیارات بدل گئے اور ہر ملک دوہرے معیار کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے کہ غریب اور کمزور اقوام وممالک کے لئے تو اصول اور ہیں لیکن طاقتور کا ہر جرم اور بربریت ایک خاص مصلحت کا حامل بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے
لیکن آج حقیقت یہی ہے کہ سارا عالم کفر صیہونی تحریک کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اور سارے مل کر عالم اسلام پر ٹوٹ پڑے ہیں ، آگ وخون میں جلتا عراق و افغانستان اور غیروں کی سازشوں کا شکار مصر ، شام ، لیبیا اور پاکستان  اس کا واضح ثبوت ہیں۔ اور جرم صرف اتنا کہ یہ مسلم ممالک ہیں۔
گلہ غیروں سے نہیں ، صرف اپنوں سے گذارش ہے کہ وہ نام نہاد سیکولر اور روشن خیال بننے کے شوق میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر نہ اگلیں ، حقائق کو دیکھیں اور آنکھیں کھول کر بار بار دیکھیں !
اور خود بھی اس بات کو تسلیم کریں اور دوسرں کو بھی بتائیں کہ اسلام امن کا دین ہے
مزدکی ہو کہ افرنگی ہو مس خام میں ہے
امن عالم  فقط  دامن  اسلام  میں  ہے
 حضرت محمد ﷺ انسانیت کے خیر خواہ اور امن کے داعی اور پیغمبر ہیں ،آپ ﷺ کی سیرت و اسوہ ، دعوت وکردار اور تعلیمات وفرامین اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ ظلم وستم ، عداوت وبغاوت ، حسد وبغض اور ارہاب و دہشت گردی کو ختم کرنے والے اور عزت واخوت ، چاہت و پیار ، محبت وعفت ، شرافت وعدالت ، امن وآشتی اور صلح وسلامتی کے داعی ہیں
سلام  اس   پر  کہ  اسرار   محبت  جس   نے   سکھائے
سلام اس  پر کہ جس نے  زخم  کھا  کر پھول  برسائے
سلام اس پرکہ جس نے خون کے پیاسوں کو قبائیں دیں

سلام اس پر  کہ  جس  نے  گالیا ں  سن کر  دعائیں  دیں



What is Islam ???

دین اسلام
(تحریر:رضوان علی)
"اسلام ایک دین ہے جو مکمل ضابطہ حیات ہے"

یعنی دین اسلام زندگی گزارنے کے لئے مکمل اور مناسب راہ نمائی فراہم کرتا ہے ۔
ایک فرد کو انفرادی حیثیت سے جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اجتماعی طور پر اسے کن باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے اسلام ان دونوں جہتوں سے فرد کو ہدایات فراہم کرتا ہے۔
ایک فرد کے  اس کی پیدائش حتیٰ کہ قبل از پیدائش سے لے کر اس کی وفات اور بعد از وفات تک کے حقوق وفرائض کی جامع انداز میں تعلیم اسلام ہی کی بدولت ہم کو ملتی ہے۔
اسلام ایک اعتدال پر مبنی منشور حیات ہے جس پر عمل کر کے ایک آدمی اچھا انسان بن سکتا ہے اور دنیا و آخرت کی کامیابی نہایت آسانی سے حاصل کر سکتا ہے ۔
اسلام ایسا ضابطہ حیات جو حقیقی کامیابی کا ضامن ہے ، اور اس ضابطہ حیات کا خالق کو ئی انسان نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی عظیم المرتبت ذات ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے اس منشور حیات کو عطا کرکے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار بھی فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کی خوشی اس بات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے  اسلام کو ہی اپنا دستور زندگی سمجھیں اور مانیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی رضیت لکم الاسلام دینا) الآیۃ :
مفہوم: (جب نبی مکرم ﷺ دس ذوالحجۃ کو حج سے فارغ ہو رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں) آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تمہارے اوپر اپنی نعمت مکمل کر دی ، (اور) اسلام کو تمہارے لئے ضابطہ حیات پسند کیا ہے ۔
ایک انسان اپنی پیدائش سے لے کر وفات تک جو جو کردار ادا کرتا ہے اور اس کا جس جس مخلوق سے جیسا بھی واسطہ پڑتا ہے اس کو ہر کردار کے بارے مکمل اور فائدہ مند ہدایات جہاں سے مل سکتی ہیں وہ دین اسلام ہے ۔
ایک چھوٹے سے بچے کے کیا حقوق ہیں ؟؟؟ اسلام تفصیل سے بیان کرتا ہے۔
ایک لڑکپن کی عمر کے بچے کو کیسی راہ نمائی چاہیئے ؟؟؟ اسلام فراہم کرتا ہے ۔
ایک نوجوان کو کن عادات وخصائل کا رسیا کرنا ہے ؟؟؟ اسلام جواب دیتا ہے ۔
ایک جوان شخص کے کیا حقوق وفرائض ہیں ؟؟؟ اسلام تعلیم دیتا ہے ۔
ایک باعزت اور ذمہ دار شہری کیسا ہوتا ہے ؟؟؟ اسلام معیار مقرر کرتا ہے۔
ایک شادی شدہ فرد کے ذمہ کس کس کے کون کون سے حقوق ہیں ؟؟؟ اسلام تفصیلات فراہم کرتا ہے۔
ایک  بیٹے کے کیا فرائض ہیں ؟؟؟
ایک باپ کے کیا فرائض ہیں ؟؟؟
ایک ماں کے کیا حقوق وفرائض ہیں ؟؟؟؟
میاں بیوی نے کیسے زندگی گزارنی ہے ؟ ذمہ داریوں کی تقسیم کیسے ہو گی ؟؟؟
والدین جب بوڑھے ہو جائیں تو ان کا ٹھکانہ اصلی گھر ہے یا کوئی سرکاری اولڈ ایج ہوم ہے ؟؟؟
ایک شخص جب وفات پا جائے تو اس کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے ؟؟؟
کو ئی تندرست ہے تو کیا کرے ؟ کوئی بیمار ہے تو اس کا کیسے خیال رکھا جائے ؟؟؟
کوئی امیر ہے تو کیسے زندگی بسر کرے ؟ کوئی نادار اورمسکین ہے تو اس کو سہارا  کیسے فراہم کیا جائے ؟؟؟
کوئی مزدور ہے تو اس کا کیا حق ہے ؟ کوئی تاجر ہے تو اس کا کیا کردار ہے ؟؟؟
کوئی طاقتور ہے تو اس کی کیا حیثیت ہے ؟ اور اگرکوئی ناتوان اور کمزور ہے تو اسے کہاں سے مدد مل سکتی ہے ؟؟؟
گویا کہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ اور کردار ہو اسلام ہر معاملے میں اصول ،قوانین اور مکمل اور باآسانی قابل عمل ہدایات فراہم کرتا ہے۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جسم عطاکرنے کے ساتھ  ساتھ مختلف صلاحیتیں اور خصلتیں بھی عطا کی ہیں ؛
 پیار کرنا ۔۔۔ نفرت کرنا۔۔۔ عزت کرنا ۔۔۔ بے عزتی کرنا ۔۔۔ دوستی کرنا ۔۔۔ دشمنی رکھنا ۔۔۔ سوچنے کی صلاحیت ،۔۔۔بات کرنے کی صلاحیت ،۔۔۔پلاننگ کرنے کی صلاحیت ۔۔۔ صلح کروانے کی صلاحیت ۔۔۔لوگوں کو لڑانے اور دوریاں پیدا کرنے کی صلاحیت ۔۔۔ مدد کرنے کی عادت ،۔۔۔رحم دلی۔۔۔ سنگ دلی ۔۔۔ سونا ۔۔۔ جاگنا ۔۔۔ ہنسنا۔۔۔ رونا ۔۔۔ بات کرنا ۔۔۔ خاموش رہنا ۔۔۔ کھانا ۔۔۔ پینا۔۔۔ پرہیز کرنا ۔۔۔ جنگ کرنا ۔۔۔صلح کرنا ۔۔۔ تعمیر ۔۔۔ تخریب اور ان جیسی اور ہزاروں عادات ۔۔۔  جبلتیں اور خصلتیں انسان کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا کردہ ہیں ۔
تو اب ان خصلتوں اور صلاحیتوں کو کب ؟ ۔۔۔کہاں ؟ ۔۔۔اور کیسے ؟۔۔۔ استعمال کرنا اور کہاں استعمال نہیں کرنا ؟۔۔۔ ان سب باتوں کا جواب ہمیں اسلام دیتا ہے ۔

اور ان تمام عادات و خصائل میں اللہ تعالیٰ کے احکامات اور نبی مکرم ﷺ کی ہدایات پر عمل کرنا ہی اسلام ہے ۔

جرمنی سے ایک نصیحت آمیز سبق

جرمنی سے ایک نصیحت آمیز سبق

محمد سلیم

مال تمہاری مگر وسائل معاشرے کی ملکیت ہوا کرتے ہیں

جرمنی ایک صنعتی ملک ہے جہاں دُنیا کی بہترین مصنوعات اور بڑے بڑے برانڈز  مثلاً مرسیڈیز بینز، بی ایم ڈبلیو اور سیمنز پروڈکٹس بنتے ہیں۔ ایٹمی ری ایکٹر میں استعمال ہونے والے پمپ تو  محض اس ملک کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بنتے ہیں۔ اس طرح کے ترقی یافتہ ملک کے بارے  میں کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ وہاں  لوگ  کس طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہونگے، کم از کم میرا خیال تو  اُس وقت یہی تھا جب میں پہلی بار اپنی تعلیم کے سلسلے میں سعودیہ سے جرمنی  جا رہا تھا۔

میں جس وقت ہمبرگ پہنچا تو وہاں پہلے سے موجود  میرے دوست میرے استقبال کیلئے ایک ریسٹورنٹ میں دعوت کا پروگرام بنا چکے تھے۔ جس وقت ہم ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے  اس وقت وہاں گاہک نا ہونے کے برابر اور اکثر میزیں خالی نظر آ رہی تھیں۔  ہمیں جو میز دی گئی اس کے اطراف میں ایک میز پر  نوجوان میاں بیوی کھانا کھانے میں مشغول تھے ،  اُن کے سامنے صرف ایک ڈش میں کھانا رکھا  ہوا تھا جس کو وہ اپنی اپنی پلیٹ میں ڈال کر کھا رہے اور شاید دونوں کے سامنے ایک ایک گلاس جوس بھی رکھا ہوا نظر آ رہا تھا جس سے میں نے یہی اندازہ لگایا کہ بیچاروں کا رومانوی ماحول میں بیٹھ کر کھانا کھانے کوتو  دل چاہ رہا  ہوگا مگر جیب زیادہ اجازت نا دیتی ہو گی۔ ریسٹورنٹ میں ان کے علاوہ کچھ عمر رسیدہ خواتین نظر آ رہی تھیں۔

ہم سب کی بھوک اپنے عروج پر تھی  اور اسی بھوک کا حساب لگاتے ہوئے میرے دوستوں نے کھانے کا فراخدلی سے آرڈر لکھوایا۔ ریسٹورنٹ میں گاہکوں کے نا ہونے کی وجہ سے ہمارا کھانے لگنے میں زیادہ وقت  نا  لگا اور ہم نے بھی کھانے میں خیر سے کوئی خاص دیر نا لگائی۔

پیسے ادا کر کے جب ہم جانے کیلئے اُٹھے تو ہماری پلیٹوں میں کم از کم ایک تہائی کھانا ابھی بھی بچا ہوا تھا۔ باہر جانے کیلئے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے  ریسٹورنٹ میں موجود اُن بڑھیاؤں نے ہمیں آوازیں دینا شروع کر دیں۔ ہم نے مڑ کر دیکھا تو وہ ساری اپنی جگہ کھڑی ہو کر زور زور سے باتیں کر رہی تھیں اور ہم نے یہی اندازہ لگایا کہ اُنکا موضوع ہمارا ضرورت سے زیادہ کھانا طلب کرنا اور اس طرح  بچا کر ضائع کرتے ہوئے جانا تھا۔ میرے دوست نے جواباً اُنہیں کہا کہ ہم نے جو کچھ آرڈر کیا تھا اُس کے پیسے ادا کر دیئے ہیں اور تمہاری اس پریشانی اور ایسے معاملے میں جس کا تم سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا میں دخل اندازی کرنا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔  ایک عورت  یہ بات سُنتے ہی  ٹیلیفون کی طرف لپکی اور کسی کو فوراً وہاں آنے کو کہا۔ ایسی صورتحال میں ہمارا وہاں سے جانا یا کھسک جانا ہمارے لیئے مزید مسائل کھڑے کر سکتا تھا اس لئے ہم وہیں ٹھہرے رہے۔

کچھ ہی دیر میں وہاں ایک باوردی شخص آیا جس نے اپنا تعارف ہمیں  سوشل سیکیوریٹی  محکمہ کے ایک افسر کی حیثیت سے کرایا۔ صورتحال کو دیکھ اور سن کر اُس نے ہم پر پچاس مارک کا جرما نہ عائد کر۔ اس دوران  ہم چپ چاپ کھڑے رہے۔  میرے دوست نے آفیسر سے معذرت کرتے ہوئے پچاس مارک جرمانہ ادا کیا اور اس نے ایک رسید بنا کر میرے دوست کو تھما دی۔

آفیسر نے جرمانہ وصول کرنے کے بعد شدید لہجے میں ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ : آئندہ جب بھی کھانا طلب کرو تو اُتنا ہی منگواؤ جتنا  تم کھا سکتے ہو۔ تمہارے پیسے تمہاری ملکیت  ضرور ہیں مگر وسائل معاشرے کی امانت ہیں۔ اس دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے بھی ہیں جو غذائی کمی کا شکار ہیں۔ تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ تم کھانے پینے کی اشیاء کو اس طرح  ضائع کرتے پھرو۔

بے عزتی کے احساس اور شرمساری سے ہمارے چہرے سرخ ہورہے تھے۔  ہمارے پاس اُس آفیسر کی بات کو سننے اور اس سے اتفاق کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ذہنی طور پر ہر اُس بات کے قائل ہو چکے تھے جو اُس نے  ہمیں کہی تھیں۔  مگر کیا کریں ہم لوگ ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جو وسائل کے معاملے میں  تو خود کفیل نہیں ہے مگر ہماری عادتیں کچھ اس طرح کی بن گئی ہیں کہ ہمارے پاس کوئی مہمان آ جائے تو  اپنا منہ رکھنے کیلئے یا اپنی جھوٹی  عزت یا خود ساختہ اور فرسودہ روایات   کی پاسداری خاطر دستر خوان پر کھانے کا ڈھیر لگا دیں گے۔ نتیجتاً بہت سا  ایسا کھانا کوڑے کے ڈھیر کی نظر ہوجاتا ہے جس کے حصول کیلیئے کئی  دوسرے ترس رہے ہوتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم  اپنی  ان بری عادتوں کو تبدیل کریں اور نعمتوں کا اس طرح  ضیاع اور انکا اس طرح سے  کفران  نا کریں۔

ریسٹورنٹ سے باہر نکل کر  میرے دوست نے سامنے کی ایک دکان سے  جرمانے کی رسید کی فوٹو کاپیاں بنوا کر ہم سب کو اس واقعہ کی یادگار کے طور پر دیں تاکہ ہم گھر جا کر اسے نمایاں طور پر کہیں آویزاں کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ آئندہ کبھی بھی اس طرح کا اسراف نہیں کریں گے۔

جی ہاں! آپکا  مال یقیناً آپکی مِلکیت ہے مگر وسائل سارے معاشرے کیلئے ہیں۔

ماں کی بد دعا

ماں کی بد دعا
 ترجمہ : محمد سلیم

ویسے تو میری ساری زندگی ہی لوگوں سے اُن کی زندگی کے قصے اور کہانیاں سنتے گزری ہے مگر جو قصہ مجھے کبھی نا بھول پائے گا ایک ایسے شخص کا ہے جو میرے پاس بہت ہی دل شکستہ  و دل گرفتہ  آیا، کہنے لگا؛ میری گھریلو  زندگی برباد ہو گئی ہے، نا پہلی بیوی سے بن پائی اور نا اب دوسری بیوی سے نباہ ہو رہا ہے، میرے بچے  میرا  احترام نہیں کرتے، گھر میں میری  کوئی قدر نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ میں  اپنے بچوں کو بالکل ایسے ہی کھو چکا ہوں  جیسے میرے  سارے کاروباری پروجیکٹس گھاٹوں کی وجہ سے بند ہو گئے ہیں، لگتا ہے اب اس  دُنیا کا ہر دروازہ میرے  منہ پر بند ہوتا جا رہا ہے، زندگی کی اب کوئی ایسی راہ باقی نہیں رہی  جو میرے  لئے کھلی رہ گئی ہو۔
میں نے اُس سے کئی سوالات کرنا چاہے تاکہ پتہ چلا سکوں کہ اُس کی ان ساری ناکامیوں کے پیچھے کیا اسباب ہیں مگر اس شخص پر اتنی مایوسی طاری تھی کہ وہ میری کسی بات کا سیدھا جواب ہی نہیں دے پاتا تھا۔ پھر  اچانک اُس نے میری باتوں کو کاٹتے ہوئے خود ہی کہا؛ میں آپ کا وقت بچانا چاہتا ہوں اور مختصراً بتائے دیتا ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ میری ان ساری ناکامیوں کا سبب میری ماں کی بد دعائیں ہیں۔ میں ہمیشہ اُس کی ہر بات کو ٹالتا ٹھکراتا اور نا فرمانی کیا کرتا تھا، اُس کا احترام تو بالکل ہی نہیں کرتا تھا بلکہ کبھی کبھی اُس پر ہاتھ بھی اُٹھاتا تھا۔ بیوی کو ہمیشہ ماں پر ترجیح دیتا تھا۔ میری ماں کو ویسے تو چپ سی لگی ہوئی تھی مگر میں جب بھی گھر آتا تو ایسے لگتا جیسے وہ زیر لب کچھ بڑبڑا رہی ہو۔ اب مجھے سمجھ آتی ہے کہ اُس کا بڑبڑانا در اصل  مجھے بد دعائیں دینا ہوتا تھا۔ بس جان لیجیئے کہ میری  ساری مشکلات کو واحد سبب  بس یہی ہے۔
میں نے کہا؛ بات تو تیری بالکل ٹھیک ہے کہ وہ  واحد گناہ جس کی سزا  دینے کی جلدی اسی دنیا میں ہی کی جاتی ہے وہ  ماں باپ کی نافرمانی ہے۔ لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، میں تو  بس یہی کہتا ہوں کہ فورا جا کر اپنی ماں سے معافی مانگ لو، بس ایک بار اس کے پاؤں پڑو گے اور اس کے سر پر پیار کرو گے تو اُس نے تیری ساری کوتاہیاں بھول کر تجھے گلے لگا لینا ہے۔  میری یہ بات سُن کر اس شخص کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑے ،  روتے ہوئے کہنے لگا؛  اب یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ وہ  تو مر چکی ہے۔ میری اس سے بڑی بد نصیبی یہ بھی رہی کہ میں نے اس کے جنازے میں بھی شرکت  کرنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔
موقعے کی مناسبت سے آپ کو اپنے ایک عزیز  دوست کا قصہ سناتا چلوں؛   یہ زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں تھا، اس کا  ایک بہت ہی چھوٹا سا کاروبار تھا مگر صاف ستھرا گھر ،  راضی بازی گھر والی اور سکول پڑھتے پیارے بچے۔ میں نے ایک بار اُس سے اُس کی خوشیوں کا راز اور کامیابی کے اسباب پوچھے تو کہنے لگا یہ سب میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ کہتا ہے میں جب میری ماں حیات تھی اور گھر جاتا تو جاتے ہی اپنی ماں کے سر پر بوسہ دیتا، وہ مجھے دعا دیتی اللہ تیرے سر کو ہمیشہ بُلند رکھے۔ بس یہی سبب ہے کہ میں اس دعا کے طفیل آج برکتوں کے میلے میں گھرا رہتا ہوں۔  میں ایک ایسے کاروباری شخص کو بھی جانتا ہوں جو اس دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہے۔ اُس نے ایک دن خود مجھے بتایا تھا میری ساری ترقی اور مال و دولت کے پیچھے  میری والدین سے محبت و عقیدت ، اُن کی رضا اور  دعائیں ہیں۔
یہ ایسے قصے ہیں جنہیں میں کبھی بھی نہیں بھلا پاتا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے کئی والدین کی اُن کی اولاد کے ساتھ ناراضگی اور اُن کے منہ سے نکلے ہوئے کلمات اور بد دعاؤں کا  بھی مشاہدہ کیا ہے۔  جیسے ایک بار میں جہاز پر سفر میں تھا۔ مجھ سے چند نشستوں کے فاصلے پر بیٹھی ایک ماں اپنے ایک ایسے بچے کو کوسنے دے رہی تھی جس کی عمر بمشکل چار سال بھی نہیں تھی۔ اُس کے کوسنے اس نوعیت کے تھے کہ میرا دل ڈوبنے لگا، مجھے لگا کہ آج تو یہ جہاز گرے ہی گرے۔ میں بھاگ کر اس ماں کے پاس گیا اور اُسے نہایت شفقت سے سمجھاتے ہوئے کہا؛ بہن یہ تو کیسی باتیں کر رہی ہے؟ کیا تجھے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول مبارک یاد نہیں ہے کہ تین دعائیں ایسی ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک ہی نہیں؛ مظلوم کی بددعا ، مسافر کی دعا ، اور والد کی دعا اولاد کے حق میں۔
پس یہ بات تو طے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں واضح موقف موجود ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ہمیشہ خیر کی دعا دیں نا کہ اُن کی بربادی اور برائی کے درپیش رہیں۔  ایک اور حدیث مبارک کا مفہوم کچھ  یوں ہے کہ: اپنی ذات پر اوراپنی اولاد پراوراپنے مال پر بد دعا مت کرو ،اللہ کی طرف سے ایسی گھڑی نہ آجائے جس میں کسی نوازش کا سوال ہو اور تمھارے حق میں قبول ہو جائے۔
والدین کیلئے  اپنے غصے پر قابو رکھنا اور خاص طور پر غصے کے دوران  اپنے الفاظ پر قابو رکھنا بہت ضروری چیز ہے۔  ہو سکتا ہے ایسے لمحات میں اُن کے منہ سے نکلے الفاظ اُن کی اولاد کی زندگیوں کو برباد کر دیں۔ کویت میں چند قصے بہت مشہور ہیں اور ہر زبان پر زد عام رہتے ہیں، اں میں سے ایک قصہ یہ بھی ہے کہ ایک ماں اپنے بیٹے پر ناراض ہوئی تو اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے کہا جا تجھے اللہ کبھی بھی بیٹے نا دے۔ اللہ پاک کا کرنا ایسا ہوا کہ اُس کی یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں اور وہ بیٹے کے رزق سے ہمیشہ محروم رہا۔
اولاد سے غصے  کے وقت بد دعاؤں اور کوسنوں کے بھی کئی متبادل ہیں۔  ہم اُن کیلئے یوں کہہ دیا کریں؛ اے اللہ میرے ان بچوں کو ہدایت دیدے، ان کو میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور راحت بنا دے، میری مدد فرما کہ میں ان کی اچھی اور بہتر تربیت کر سکوں، ان کو عزت دار بنا، ان کا اخلاق اچھا بنا دے، ان کو نیک اور صالح دوستوں کی صحبت عطا فرما دے، ان کو قرآن کا حافظ بنا دے، ان کو بری صحبت سے محفوظ رکھیو، ان کے سینوں کو کھول دے ، ان کے سارے کاموں کو آسان بنا دے، ان کو ہدایت دیئے رکھنا، شیطان کے مکر و فریب سے پناہ میں رکھنا۔ یا اللہ میرے بچوں کو مؤمنین، صالحین، تائبین، قانتین، عابدین، طائعین میں سے بنا دے، انہیں اپنے دین کا خدمت گزار بنا دے۔ اے اللہ ان کا اخلاق اچھا ہو، ان کی عبادت مقبول ہو، ان کی زندگی خوشیوں سے بھر پور ہو، ان پر حلال رزق کی فراوانی ہو، حرام سے محفوظ رہیں، تیرے سوا کسی کے محتاج نا ہوں۔ آمین یا رب العالمین۔
میں نے ایک بار ایک ماں کو ایسی خوبصورت دعا کرتے ہوئے بھی سنا؛ کہہ رہی تھی: اے اللہ میرے بچوں کو ایسا بنا دے کہ ان میں  سیدنا یوسف علیہ السلام  کا حسن جھلکتا ہو، لقمان جیسے دانائی ہو، سیدنا ایوب علیہ السلام جیسا صبر ہو اور آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا اخلاق پایا جاتا ہو۔حضرت
میں نے تفسیر ابن کثیر میں یہ بھی پڑھا ہے  کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے لطف اور تحمل کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ ان کی وہ بد دعائیں،  جو انہوں نے  ایسے وقت میں، اپنے آپ پر کی ہوں  یا اپنے مال مویشی پر یا اپنی آل اولاد پر، جب کہ وہ پراگندہ ذہن اور غصے کی حالت میں تھے اور اُن کا دلی مقصد  ایسی ایذا اور نقصان مقصود نہیں تھا قبول نہیں فرماتا۔ اللہ تبارک و تعالٰی وہ دعائیں یا بد دعائین قبول فرماتے ہیں جو ان کی رضا اور سکون کی حالت میں مانگی ہوں۔  یہ اللہ پاک کا اپنے بندوں پر بہت ہی لطف اور احسان ہے۔ یہ باتیں مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تفسیر سے لی گئی ہیں: اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ برا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلت عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے اس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھُوٹ دے دیتے ہیں (سورة يونس – 11)
دعا اور بد دعا کے  قبول کیئے جانے یا رد کیئے جانے میں  نیت اہم کردار ادا کیا کرتی ہے۔ اللہ پاک ہماری اولاد کی بہتری فرمائیں اور ہمیں اس فریضے سے سبکدوش ہونے میں مدد فرما دیں۔ آمین
مندرجہ بالا مضمون  ڈاکٹر جاسم الکویتی کا مقالہ ہے ایک عربی اخبار میں چھپا تھا۔ فائدے کیلئے میں نے اسے ترجمہ کر کے آپ کی خدمت میں پیش کیا